مصری صدر محمد_مرسی کو 85 سال قید اور پانچ کیسز میں سے 4 کیسز میں سزائے_موت سنا دی گئی
اس کے ساتھ ہی الاخوان المسلمون کی ایک خاطون راہنما اسماء_الخطیب کو پھانسی کی سزا بھی سنائی گئی
مصر کی ایک عدالت نے ملک کے سابق صدر محمد مُرسی کو قومی راز افشا کرنے اور جاسوسی کے الزام میں عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔ مرسی کو ایک اور مقدمے میں موت کی سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔
مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کو ہفتہ 18 جون کو قاہرہ میں ایک عدالت نے سزائے عمر قید سنا دی، جب کہ اسی مقدمے میں چھ افراد کو موت کی سزا بھی سنائی گئی۔ مرسی پر الزام تھا کہ انہوں نے حساس ملکی راز افشا کر کے غداری کا ارتکاب کیا۔
یہ پہلا موقع نہیں جب سابق صدر کو عدالت نے سزا سنائی ہو۔ ان کو موت کی سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔ واضح رہے کہ مرسی سن دو ہزار گیارہ میں اس وقت اقتدار میں آئے تھے جب ان کو عوامی ووٹوں کے ذریعے چنا گیا تھا۔ اس سے قبل سابق آمر حسنی مبارک کے خلاف ملک گیر پیمانے پر عوامی احتجاج اور جمہوری تحریک کا آغاز ہو چکا تھا۔ تاہم قدامت پسند نظریات کے حامل محمد مرسی کو فوج نے سن دو ہزار تیرہ میں اقتدار سے معزول کر دیا، جس کے بعد فوجی
قیادت نے مرسی کے حامیوں اور دائیں بازو کی اسلامی جماعت اخوان المسلمون کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا۔ اس کے بعد سے لے کر اب تک اخوان کے کئی رہنماؤں کو سزائیں دی جا چکی ہیں اور جماعت کے کارکنان زیر عتاب ہیں۔
ہفتے کے روز مرسی کو جو سزا سنائی گئی اس کا تعلق اس غیر قانونی تنظیم سے تھا جو کہ استعاثہ کے مطابق پندرہ برسوں سے ’’ریاستی سکیورٹی سے متعلق دستاویز چرا رہی تھی۔‘‘
تاہم مرسی کو اس مقدمے میں سزائے موت اس لیے نہیں دی گئی کہ ان پر یہ الزام ثابت نہ ہو سکا کہ انہوں نے یہ دستاویزات قطر کے حوالے کی تھیں۔ جن افراد کو موت کی سزا سنائی گئی ہے ان پر یہ الزام ثابت ہوا ہے۔
مرسی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ملکی فوجی قیادت دانستہ طور پر اخوان اور اس کی قریبی جماعتوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مرسی اور اخوان المسلمون کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں۔
تاہم مرسی کی حکومت سے علیحدگی کے بعد مصر کے حالات ابتر ہوئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق فوجی حکومت طاقت کے ذریعے مسائل پر قابو پانا چاہتی ہے تاہم سیاسی خلا کے باعث جہادی تنظیموں، بہ شمول ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو مصر میں قدم جمانے کا موقع مل گیا ہے۔